بر
صغیر کے متداول مصاحف رسم عثمانی کے مطابق ہیں
قرآن کریم اپنے نظم اور معنی دونوں
اعتبار سے معجزہ ہے ،جس طرح وہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے، اسی
طرح طریقہٴ کتابت و طرز ِنقوش یعنی رسم الخط کے اعتبار سے
بھی معجزہ ہے۔ قرآن کریم کے رسم الخط کی حقیقت کیا
ہے؟ اسے رسم عثمانی کیوں کہتے ہیں ،قرآن پاک کا رسم عثمانی
کے مطابق ہونا ضروری ہے اور امت میں متداول مصاحف رسم عثمانی کے
مطابق ہیں وغیرہ ان امور کی تفصیل کا یہ موقع نہیں
ہے؛ البتہ رسم المصحف سے متعلق بہت اختصار کے ساتھ ایک تاریخی
حقیقت پیش کی جاتی ہے؛ تاکہ قرآن پاک کا رسم عثمانی
کے مطابق ہونے کا مطلب واضح ہوجائے اور اگر کسی کو خلجان ہو تو دور ہو جائے ۔
فن رسم کی بنیادی کتاب
یہ مسلَّم حقیقت ہے کہ قرآن
کریم کا رسم الخط یعنی رسم عثمانی پر صحابہ و تابعین
کا اجماع ہوا ہے اور آج تک پوری امت مسلمہ کاا س پر اتفاق قائم ہے یہ
رسم عثمانی سماعی؛ بلکہ توقیفی ہے، جو بہت سے اسرار
وحِکَم پر مشتمل ہے ۔ملاحظہ ہو ”عنوان الدلیل فی مرسوم خط
التنزیل“ پس معلوم ہونا چاہیے کہ خلیفہٴ راشد حضرت عثمان غنی کے حکم سے جب مصحف
صدیقی کے لغت قریش پر متعدد نسخے تیار کیے گئے اور
کوفہ، بصرہ، مکہ،مدینہ اور شام و بحرین روانہ کیے گئے اور اس کے
مطابق نسخ و نقل کا فرمان امیر الموٴمنین نے جاری کیا
تو نسخ مصاحف کا سلسلہ قائم ہوگیا؛ لیکن یہ سب بے نقط و بے
اعراب تھے اور جب نقطے و اعراب لگائے گئے تو امت نے عظمت سے اس کا استقبال کیا
اور بہت سرعت سے بااعراب و بانقط مصاحف کا زریں سلسلہ چل پڑا، ساتھ ساتھ حضرات
تابعین و تبع تابعین نے نظم قرآن سے متعلق قراء ات مسندہ اور کلمات
قرآنیہ کے طرز نقوش و طریقہٴ کتابت کو بھی اپنی
کتابوں میں ضبط کیا؛چنانچہ قرائات مسندہ پر اور رسم المصحف کی
تحقیق میں متقدمین کی تصنیفات ”کتاب القراء ات “
اور ”کتاب المصاحف “کے نام سے وجود میں آئیں (دیکھیے
فہرست ابن الندیم )گویا رسم عثمانی جس سے نظم قرآن مزین
ہے اس کا ذکر کتابوں میں بھی محفوظ ہوچکا تھا، اگر چہ بحیثیت
علم و فن یکجا نہیں تھا یہاں تک کہ چوتھی صدی میں
جو کہ سلَف کا زمانہ ہے اللہ تعالی نے ابو عمرو عثمان الدانی کو فن
رسم کے مدون اور واضع کی حیثیت سے ظاہر فرمایا، آپ نے
عراق و حجاز اور شام وغیرہ کے مصاحف قدیمہ کو غائر نظر سے ملاحظہ کرکے
اور متقدمین کی کتاب المصاحف کو مدنظر رکھ کر تمام کلمات قرآنیہ
کے طرزِخط و طریقہٴ کتابت کو اجمال، مگر جامع انداز میں یکجا
کیااور اس کے متعلق کلی یا جزئی ہدایات اپنی
کتاب ”المقنع“ میں درج فرمائیں یہی ہدایات خط مصحف
کے اصول و ضوابط قرار پائے اور یہی اصول و ضوابط رسم المصحف یا
رسم عثمانی کہلاتے ہیں جس کی مطابقت کلام اللہ کے قرآن ہونے کے
لیے ایک شرط لازم ہے علامہ دانی کی ”المقنع“ اس موضوع پر
اساس و خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔
دانی کے اصول و ترجیحات پر امت کا تعامل
علامہ دانی کے بیان کردہ اصول
و مستثنیات سے آپ کے شاگرد ابو داوٴد سلیمان بن نجاح کے سواء
تمام تلامذہ نے اتفاق کیا اور علمائے اسلام نے اس کی پذیرائی
کی ۔اور مصاحف کے نقل میں ان اصول کی رعایت کی
جانے لگی ،پھر ایک صدی سے زائد عرصہ کے بعدفن قرأت ورسم کی
ایک عبقری شخصیت حافظ حدیث ماہر عربیت رئیس
القراء علامہ ابو محمد قاسم الشاطبی نے ”المقنع“ کو” عقیلہ“کے لباس
فاخرہ میں آراستہ کیا۔پھر شیخ الاسلام علم الدین
سخاوی نے” الوسیلہ ،،کے ذریعہ ”عقیلہ“کے محاسن خفیہ
کو ظاہر کیا؛تاکہ اہل علم کما حقہ مستفیدہو سکیں۔خیر
علامہ شاطبی کی طرف سے بعض کلمات کا اضافہ ہو یا علامہ سخاوی
کی طرف سے بعض ترجیحات ہوں یہ سب علامہ دانی کے اصول و
ضوابط کے دائرہ سے خارج نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ عالَم
اسلام میں نقل مصاحف کے سلسلہ میں ہمیشہ دانی و شاطبی
کے پیش کردہ اصول و ترجیحات کو اختیارکیا گیا ہے
اور اس پر تعامل و توارث قا ئم ہے ۔گویا جس طرح قراء ات ِمتواترہ ائمہ
قرأت کے نام کی طرف منسوب ہوکر معروف ہوگیا کچھ اسی طرح قرآن مجید
کا ” رسم عثمانی“ توحضرت عثمان غنی کی طرف ہی منسوب ہے؛ البتہ علامہ دانی کی
امامت و سیادت فن رسم میں عند اللہ ایسی مقبول ہوئی
کہ رسم عثمانی کی مطابقت کی تحقیق کے لیے ”المقنع
بلکہ عقیلہ “ سے موافقت کوضروری تسلیم کیا گیا؛ یہاں
تک کہ محقق امام جزری جو بعض جگہ ابوداوٴ د سلیمان بن نجاح سے زیادہ
موافق نظر آتے ہیں لیکن اصولاً وہ بھی دانی و شاطبی
کے ہم خیال ہیں ۔
حاصل یہ کہ رسم مصحف میں جو
منہج علامہ دانی نے پیش کیا ہے ائمہٴ رسم میں اقل
قلیل اختلاف کے ساتھ وہی امت میں رائج و معمول ہے ۔ اور
اہل علم و فن کی دیانت وانصاف پسندی ہر جگہ ہے اور یہاں
بھی کہ رسم مصحف کے بیان میں علامہ دانی کے تلمیذ
لبیب ابوداوٴد کے اختلا ف کو بھی ذکر کرتے ہیں مگر عملی
طور پر امت میں ابو داوٴد کا منہج یعنی ان کے بعض اصول
اور ترجیحات کو اختیار نہیں کیا گیا ہے؛ چنانچہ
عالَم اسلام کے مشہور محقق محدث صاحب التصانیف الکثیرة شیخ محمد
زاہد الکوثری نے اپنے مضمون ․․․․․ میں
لکھا ہے کہ ” گذشتہ صدیوں میں مصاحف کے رسم عثمانی کی
مطابقت کی تحقیق علامہ شاطبی کی ”الرائیہ“ اور اس جیسی
کتابوں سے کی جاتی تھی “
ابو داوٴد کی ترجیحات کا حامل پہلا مصحف
مستشرقین کی تحقیقی
کاوشوں کے نتیجہ میں جب امام دانی کے شاگرد سلیمان بن
نجاح کی کتاب ”التبیین“دستیاب ہوئی تو امام دانی
کی ترجیحات پر تعامل و توارث قائم ہونے کے باوجود ابن نجاح کے اصول کو
مد نظر رکھ کرایک جدید مصحف تیار کیا گیا؛ چنانچہ شیخ
محمد شفاعت ربانی محقق فن ِرسم مجمع ملک فہد مدینہ منورہ حفظہ اللہ نے
اپنے مضمون ”بر صغیر اور عرب ممالک میں طبع شدہ مصاحف کا رسم الخط علمی
و تقابلی جائزہ “ میں لکھا ہے ” اس منہج کو جنہوں نے عملی جامہ
پہنایا، وہ ہیں مصر کے مشہور عالم وقاری شیخ رضوان
مخلّلاتی متوفی ۱۳۱۱ ھ “ یعنی
ابو داوٴد کی ترجیحات کے مطابق عالَم اسلام میں پہلی
مرتبہ مصر میں چودھویں صدی کے اوائل میں مصحف منصہ شہود
پر آیا ۔بہر حال عالم اسلام بلکہ پورے عالَم میں جہاں بھی
مسلمانوں نے قرآن پاک لکھا ہے اگر اس میں رسم عثمانی کی رعایت
ہے تو دستورِ کتابت وہی ہے جو شاطبی کے توسط سے عالَم میں مشہور
و منقول ہے ۔
بر صغیر کے مصاحف ”دانی“ کے منہج کے مطابق ہیں
عالَم اسلام کا ایک بڑا حصہ ماضی
بعید میں غیر منقسم ہند بھی تھاجو بر صغیر کہلاتا
ہے اس وسیع و عریض ملک میں مسلمانوں کی ۸/سو سالہ
کامیاب حکمرانی رہی ہے اور سلاطین نے علم اور اہل علم کی
قابل قدرخدمت اور ان کی سرپرستی کی بالخصوص اورنگ زیب
عالمگیر جو عدل گُستری
وعلم پَروری اور پابندیِ شرع میں خلیفہٴ راشد سمجھے
گئے ہیں، آپ بدست خود مصحف شریف کی عمدہ کتابت کرتے تھے، آپ فن
رسم سے بھی واقف تھے، آپ کا مصحف راقم نے بالاستیعاب دیکھا اور
پڑھا ہے ،اس وسیع و عریض ملک میں بے شمار مصاحف لکھے گئے، ان میں
جو آب و گل کے نقصان سے بچ رہے، اس کی خاصی مقدار ملک کی قدیم
لائبریری اور کتب خانوں میں موجود ہے اور راقم نے ان کا معاینہ
کیا ہے۔ اور جب طباعت کا دور شروع ہوا اور مصحف پہلی مرتبہ
برطانیہ سے طبع ہوا وہ پہلا مطبوعہ نسخہ بھی راقم کی نظر سے
گذراہے پس مطبوعہ مصاحف اور قدیم مخطوطہ مصاحف کو اگر ان میں رسم کی
مطابقت ہے بندہ نے دانی کے منہج کے مطابق پایا ہے ۔
لہٰذا جس دستور و منہاج پر ایک
ہزار سال گذر گئے اور جو اہل علم میں متوارث رہا بلکہ امت مسلمہ جس سے مانوس
و متفق رہی اور اس کا سلسلہٴ سند اصل مصاحف عثمانیہ سے جاملتا
ہے، اس منہاج کے حق ہونے اور اس کے مطابق مخطوطہ و مطبوعہ مصاحف کے برحق ہونے میں
ادنی بھی شک نہیں کیا جاسکتا ہے ورنہ اجماع امت کے اعتبار
کا جھنڈا سرنگوں ہوجائے گا ۔
سعودی مصاحف کا منہج
حجاز کے سابق سلطان فہد بن عبد العزیز
خادم الحرمین الشریفین نے قرآن کریم کی عالمی
اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور ”مجمع ملک فہد “ کے نام سے ایک عظیم
الشان ادارہ قائم فرمایا، اس کے ذریعہ سب سے پہلے عربی طرز خط میں
جس مصحف کی اشاعت ہوئی اور آج تک ہورہی ہے، اس مصحف کے رسم
عثمانی سے مطابقت کے لیے وہ منہج منتخب کیا گیا جو جامعہ
ازہر مصر کے سو سالہ قدیم مطبوعہ ایک مصحف میں اختیار کیا
گیا ہے جس کو مصر کے مشہور عالم و قاری شیخ رضوان مخلّلاتی
(متوفی ۱۳۱۱ ھ) نے متوارث منہاج یعنی
علامہ دانی کی ترجیحات کو چھوڑ کرابو داوٴد سلیمان
بن نجاح کی ترجیحات کے مطابق مصحف تیار کرایا، جس کی
شہادت اوپر پیش کی گئی ہے ازہر مصر کا یہ مطبوعہ نسخہ
راقم نے ملاحظہ کیا ہے جس کی پشت پر ابو داوٴد کی ترجیحات
کا ذکر صراحةً موجود ہے اور اسی طرح کی صراحت” مجمع،، سے شائع ہونے
والے عربی طرز کے مصاحف کے اخیر میں بھی موجود ہے اور جس
کے داخلی قرائن یہ ہیں کہ جن چند کلمات میں کاتب کی
فروگذاشت مصری نسخہ میں واقع ہوئی ہے وہ سعودی مصاحف میں
بھی بعینہ موجود ہے ۔
بہر حال ”مجمع ،،سے شائع ہونے والے عربی
طرز خط کے مصاحف بھی تر جیحی منہج بدل جانے کے باوجود رسم عثمانی
کے مطابق ہیں اور عالَم عرب میں قبول عام حاصل کر چکے ہیں؛ بلکہ
حجاز کے علاوہ دیگر ممالک عربیہ میں حکومت یا موٴقر
ادارہ کے زیر انتظام جو مصاحف شائع کیے جا رہے ہیں وہ کاغذ، نقش
ونگار اور جلد کے عمدہ معیار میں اگر چہ مختلف ہوں نفس مصحف اسی
مصری نسخہ یاسعودی مصحف کی نقل ہے خط اور رسم الخط دونوں
کا یکساں ہے، جیسا کہ راقم الحروف نے شام ،بحرین ،قطر وغیرہ
کے جدید مطبوعہ مصاحف کا معاینہ کیا ہے ۔
پس رسم الخط میں ترجیحات کے
اختلاف سے حجازی مصاحف کو خلاف رسم عثمانی نہیں کہا جاسکتا تو
پھر بر صغیر اور دیگر ممالک عجم کے مصاحف جو دانی و شاطبی
کے اصول و ترجیح کے مطابق شائع کیے جارہے ہیں، وہ کیوں کر
خلاف رسم کہلائیں گے؛البتہ بعض کلمات میں کتابت کے دوران قلمی
لغزش ہوجائے اور وہ لغزش چشم گرفت میں نہ آسکنے کی وجہ سے باقی
رہ جائے تویہ ممکن بلکہ واقع ہے اور قابل اصلاح ضرور ہے۔
مکتبہ دار السلام (پاکستان) کا مطبوعہ مصحف
غالباً ۲۰۱۲ء میں
مکتبہ دار السلام پاکستان نے سعودی مصحف کی نقل لے کر اپنے مکتبہ سے
شائع کیا پھر ایک تحریر”پاکستانی مصاحف کی حالت
زار“ مکتبہ کے بعض ذمہ داروں نے شائع کی ہے مضمون کا حاصل یہ ہے کہ
سعودی مصحف یا عرب ممالک کے مصاحف رسم عثمانی کے مطابق ہیں
اور برصغیر کے مصاحف رسم عثمانی کے خلاف ہیں(معاذ اللہ ) اس کے
ذریعہ بر صغیر خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں کو ذ ہنی تشویش
میں مبتلا کرنے کی بے جا سعی کی گئی ہے ۔مجمع
ملک فہد کے دو اہل علم محقق شیخ محمد شفاعت ربانی حفظہ اللہ اور شیخ
محمد الیاس فیصل حفظہ اللہ نے ” مکتبہ دار السلام کے مطبوعہ مصحف کی
تعریف اور دوسرے مصاحف کی تنقیص “پر اہل مکتبہ دار السلام کی
تحریر کا متانت و سنجیدگی سے علمی انداز میں مختصر
جائزہ پیش کر کے انھیں اپنی غلط روش سے ادب کے ساتھ باز رہنے کی
تلقین فرمائی ہے فجزا ہم اللّٰہ احسن الجزاء۔
اس لیے مذکورہ بالا حقائق کے پیشِ
نظر پورے یقین کے ساتھ عرض ہے کہ بر صغیر کے مصاحف صد فیصد
رسم عثمانی کے مطابق ہیں اسے خلاف رسم بتانا یا تو حقائق سے
ناواقفیت ہے یا حقائق سے انحراف کر کے عمداً امت میں ایک
نئے فتنہ کی تخم ریزی کرنا ہے، جس کا قلع قمع کرنا ضروری
ہے، خدارا ایسی خلافِ حقیقت تحریروں سے مسلمانوں کی
غلط رہنمائی نہ کریں اور امت میں گمراہی پھیلانے کا
ذریعہ نہ بنیں ۔اللہ تعالی امت کو فتنوں سے محفوظ فرمائے
اور فتنہ کے دفع کے لیے ہونے والی کوششوں کو قبول فرمائے ۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
رسم خط المصحف کے تعلق سے بعض علماء میں
ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ جب اپنے مانوس
ومعروف قرآن پاک کے علاوہ دوسرے علاقہ کے مصحف کو دیکھتے ہیں اور اس
کا طرزِ خط الگ ہوتا ہے تو بلا تکلف زبان پر یہ جملہ آجاتا ہے کہ اِس مصحف
کا رسم الخط الگ ہے اور ہمارے مصحف کا الگ ۔ چنانچہ اپنے علاقہ کے مطبوعہ
مصاحف کے مقابلہ میں جو ان کے نزدیک معتبر ومتداول اور رسم عثمانی
کے مطابق ہیں دوسرے علاقہ کے مصحف کے متعلق ذہنی خلجان اور شبہ ہوتا
ہے کہ یہ رسم الخط کہاں سے اور کب سے ہے؛ حالانکہ یہ سب خط (کتابت
ولکھاوٹ) کا اختلاف ہوتا ہے، نہ کہ رسم الخط کا۔ رسم الخط تو تمام مصاحف میں
خواہ وہ عربی ہو یا ہندی رسم عثمانی ہی ہے۔ یہ
شبہ اس لیے پیدا ہوا کہ خط کے فرق کو رسم الخط کا فرق سمجھ لیا
گیا پس دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔
خط ورسم الخط کا فرق :
اصطلاحی اعتبار سے حروف ہجاء کو ملاکر لفظ
کی صورت بنانے کو خط کہتے ہیں۔ اور یہ حروف سب مل کر رہیں
گے یا کچھ الگ ، اور کوئی حرف بڑھایا جائے گا یا حذف ہوگا
وغیرہ اسی وصل وقطع اور حذف و زیادت کی پابندی کا
نام رسم الخط ہے۔ (تذکرہ قاریان ہند ص۹)
خط یہ ایک علم وفن ہے اور فن
کے ماہرین نے عربی خطوط کے سات اصول اور اس کے متعدد فروع بیان
کیے ہیں: ثُلث ، ریحان، محقق، نسخ، توقیع، رقاع اور تعلیق
۔ اِن سات کے مجموعہ کو ہفت قلم کہا جاتا ہے پھر نسخ اور تعلیق کے
امتزاج سے ایک اور خط ایجاد کیا گیا جس کو نستعلیق
کہتے ہیں۔ بہر حال خط نام ہے نقش کا اور رسم الخط نام ہے اصول و ضوابط
کا، لہٰذا خط اور رسم الخط دو الگ الگ شی ہے۔ خطوط میں
تبدیلی ہوتی ہے ضابطہٴ خط میں نہیں ۔
پس مصحف شریف کے لکھنے کے جو اصول وضوابط ائمہٴ رسم نے بیان کیے
ہیں وہی رسم الخط رسم مصحف ہے جو رسم عثمانی کہلاتا ہے اور مصحف
کا رسم عثمانی کے مطابق ہونا شرط لازم ہے۔حاصل یہ کہ مصاحف کے
خطوط کے اختلاف سے رسم الخط (رسم مصحف) کا اختلاف نہیں سمجھنا چاہیے!
خط اور تلفظ کا فرق
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ خط کے
فرق سے کلمہ کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں ہوتا بخلاف قراء ت سبعہ
مشہورہ یا دیگر قرا ء ا ت کے، کہ اس سے مراد الفاظ قرآن کے تلفظ ہی
کا اختلاف ہے، مثلاً:”مٰلک یوم الدین“کوئی باثبات الالف
پڑھتا ہے اور کوئی بحذف الالف اور رسم الخط میں حذف و زیادت،
وصل و فصل کی پابندی ہوتی ہے یہی مطلب ہے اس کے توقیفی
ہونے کا جس طرح نظمِ قرآن معجز ہے اسی طرح اس کا رسم الخط بھی معجز ہے
۔
$$$
-------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438
ہجری مطابق جولائی 2017ء